ج کی دنیا تیزی سے بدل رہی ہے اور ٹیکنالوجی اس تبدیلی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ خاص طور پر مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence – AI) اور روبوٹکس (Robotics) ہمارے روزمرہ کے معمولات، صنعتوں، اور سماجی ڈھانچے کو نئے سرے سے تشکیل دے رہے ہیں۔ میلانیہ ٹرمپ کے حالیہ بیان نے اس بحث کو مزید تقویت بخشی ہے کہ AI robots محض تخیل کا حصہ نہیں رہے، بلکہ وہ حقیقت بن چکے ہیں۔
ان کے مطابق، اصل چیلنج ان سے نمٹنے کا طریقہ کار سمجھنے میں ہے۔ یہ بلاگ پوسٹ AI روبوٹس کی دنیا، ان کے معاشرتی، اخلاقی، اور معاشی اثرات، اور ان کے مستقبل کو تفصیل سے بیان کرے گی، تاکہ ہم اس نئی حقیقت کے لیے تیار ہو سکیں۔
میلانیہ ٹرمپ کا بیان اور AI روبوٹس کی بڑھتی ہوئی حقیقت
میلانیہ ٹرمپ کا یہ بیان کہ “روبوٹس آ چکے ہیں” ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب AI robots کی ترقی عروج پر ہے۔ یہ صرف سائنسی فکشن (Science Fiction) کی کہانیاں نہیں رہیں، بلکہ اب حقیقی دنیا میں صنعتی پیداوار (Industrial Production)، صحت کی دیکھ بھال (Healthcare)، نقل و حمل (Transportation)، اور یہاں تک کہ گھر کے کاموں میں بھی استعمال ہو رہے ہیں۔ AI کی ترقی نے روبوٹس کو محض سادہ میکانیکی آلات (Mechanical Devices) سے ہٹا کر ایسے ذہین نظاموں میں بدل دیا ہے جو ماحول سے سیکھ سکتے ہیں، فیصلے کر سکتے ہیں، اور انسانوں کے ساتھ تعامل (Interact) کر سکتے ہیں۔
پہلے روبوٹس فیکٹریوں کی اسمبلی لائنز (Assembly Lines) تک محدود تھے، لیکن آج وہ آپریٹنگ رومز (Operating Rooms)، گوداموں (Warehouses)، اور عوامی مقامات پر بھی نظر آتے ہیں۔ یہ تبدیلی AI اور مشین لرننگ (Machine Learning) میں ہونے والی نمایاں پیش رفت کی بدولت ممکن ہوئی ہے۔ AI روبوٹس کے بڑھتے ہوئے استعمال نے جہاں بے شمار فوائد فراہم کیے ہیں، وہیں نئے چیلنجز اور خدشات کو بھی جنم دیا ہے، خاص طور پر ان کے اخلاقی، سماجی، اور اقتصادی اثرات کے حوالے سے۔
میلانیہ ٹرمپ کا یہ کہنا کہ “ان کا طریقہ کار غلط ہے کہ ان سے کیسے نمٹا جائے” اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ہمیں اس ٹیکنالوجی کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے ایک جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ ہمیں صرف AI روبوٹس کو تیار کرنا ہی نہیں، بلکہ ان کے معاشرے پر پڑنے والے اثرات کو سمجھنا اور ان کا مؤثر طریقے سے انتظام کرنا بھی ضروری ہے۔ یہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے جس کے حل کے لیے ٹیکنالوجی کے ماہرین، پالیسی سازوں، اور عام عوام کو مل کر کام کرنا ہو گا تاکہ اس تیز رفتار تبدیلی کے دور میں سب کے لیے ایک بہتر مستقبل کو یقینی بنایا جا سکے۔
AI روبوٹس کے اخلاقی پہلو اور سماجی اثرات
جب ہم AI روبوٹس کی بات کرتے ہیں تو اخلاقیات (Ethics) کا پہلو سب سے اہم ہو جاتا ہے۔ یہ روبوٹس اب صرف ہدایات پر عمل نہیں کرتے، بلکہ خود مختار (Autonomous) فیصلے بھی لیتے ہیں۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی AI روبوٹ غلطی کرتا ہے، تو اس کا ذمہ دار کون ہو گا؟ کیا ہارڈ ویئر (Hardware) بنانے والی کمپنی، سافٹ ویئر (Software) ڈیولپ کرنے والے انجینئرز، یا اسے استعمال کرنے والا شخص؟ یہ ایک ایسا “احتسابی خلا” (Accountability Gap) ہے جسے پر کرنا بہت ضروری ہے۔ [2]
اس کے علاوہ، AI روبوٹس میں تعصب (Bias) کا مسئلہ بھی سنگین ہے۔ اگر ان روبوٹس کو تربیت (Train) دینے والے ڈیٹا (Data) میں انسانی تعصبات شامل ہوں، تو وہ بھی انہی تعصبات کو اپنے فیصلوں میں ظاہر کریں گے۔ مثال کے طور پر، اگر ملازمت کے لیے درخواست دہندگان کو چھانٹنے والا AI نظام پچھلے ڈیٹا کی بنیاد پر تیار کیا گیا ہے جس میں کسی خاص جنس یا نسل کے لوگوں کو زیادہ ترجیح دی گئی ہو، تو نیا نظام بھی اسی تعصب کو فروغ دے سکتا ہے۔ فیشل ریکگنیشن سافٹ ویئر (Facial Recognition Software) میں بھی یہ مسئلہ سامنے آیا ہے جہاں وہ مختلف رنگت کے لوگوں کو غلط طریقے سے شناخت کرتا ہے۔ یہ صرف اخلاقی مسئلہ نہیں بلکہ سماجی مساوات (Social Equality) کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔
سماجی تعلقات پر بھی AI روبوٹس کا اثر نمایاں ہو سکتا ہے۔ نرسنگ ہومز میں کیئر روبوٹس (Care Robots) یا بچوں کے لیے ساتھی روبوٹس (Companion Robots) تنہائی کو کم کر سکتے ہیں، لیکن یہ انسانوں کو جذباتی سہارے کے لیے مشینوں پر زیادہ انحصار کرنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔ اس سے انسانی تعلقات کی نوعیت بدل سکتی ہے اور ہم ایک ایسی دنیا کی طرف بڑھ سکتے ہیں جہاں انسانوں کا باہمی تعامل کم ہو جائے۔ ان چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے ڈیٹا سیٹس میں شفافیت (Transparency)، آزادانہ آڈٹ (Independent Audit)، اور اخلاقی ڈیزائن کے فریم ورک (Ethical Design Frameworks) کی ضرورت ہے۔ ہمیں یہ یقینی بنانا ہو گا کہ AI روبوٹس انسانی اقدار کے مطابق تیار اور استعمال کیے جائیں۔
AI روبوٹس کا روزگار اور معیشت پر اثر
AI روبوٹس کی آمد سے سب سے بڑا خدشہ روزگار (Employment) کے بارے میں ہے۔ بہت سے لوگ پریشان ہیں کہ AI اور آٹومیشن (Automation) ان کی ملازمتیں چھین لیں گے۔ مکنزی (McKinsey) کی ایک رپورٹ کے مطابق، 2030 تک امریکہ میں تقریباً 30 فیصد ملازمتیں خودکار (Automated) ہو سکتی ہیں، جبکہ 60 فیصد ملازمتوں میں AI ٹولز کے ذریعے نمایاں تبدیلیاں آئیں گی۔ گولڈمین سیکس (Goldman Sachs) کا اندازہ ہے کہ 2045 تک 50 فیصد تک ملازمتیں مکمل طور پر خودکار ہو سکتی ہیں۔
یہ درست ہے کہ AI روبوٹس ڈیٹا انٹری (Data Entry)، شیڈولنگ (Scheduling)، اور کسٹمر سروس (Customer Service) جیسے دہرائے جانے والے اور قواعد پر مبنی (Rule-Based) کاموں کو خودکار بنا رہے ہیں۔ اس سے کچھ شعبوں میں بڑے پیمانے پر ملازمتوں میں کمی آ سکتی ہے۔ تاہم، یہ مکمل تصویر نہیں ہے۔ ورلڈ اکنامک فورم (World Economic Forum) کی رپورٹ کے مطابق، اگرچہ 2025 تک 75 ملین ملازمتیں AI کی وجہ سے ختم ہو سکتی ہیں، لیکن اسی دوران 133 ملین نئی ملازمتیں بھی پیدا ہوں گی۔ [5]
AI کا اثر یکساں نہیں ہو گا۔ کچھ ملازمتیں تیزی سے ختم ہوں گی، جبکہ کچھ مزید دیر تک برقرار رہیں گی۔ خاص طور پر وہ ملازمتیں جن میں انسانی خصوصیات جیسے سماجی مہارتیں (Social Skills)، جذباتی ذہانت (Emotional Intelligence)، اور باہمی تعلقات (Interpersonal Relationships) کی ضرورت ہوتی ہے، وہ AI کے خطرے سے محفوظ رہیں گی۔ صحت کی دیکھ بھال (Healthcare)، تعلیم (Education)، اور تخلیقی شعبے (Creative Fields) میں نئی ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوں گے۔ AI روبوٹس کے ساتھ کام کرنے کے لیے نئے ہنر (Skills) جیسے تجزیاتی سوچ (Analytical Thinking)، سسٹم ڈیزائن (System Design)، اور ڈیجیٹل خواندگی (Digital Literacy) کی ضرورت ہو گی۔ اس لیے، ہمیں اپنی افرادی قوت (Workforce) کو ان تبدیلیوں کے لیے تیار کرنا ہو گا، مہارتوں کو اپ گریڈ (Upskill) کرنا ہو گا، اور نئے شعبوں میں تربیت (Retrain) فراہم کرنی ہو گی۔ [3]
AI روبوٹس ہماری روزمرہ زندگیوں میں
AI روبوٹس صرف فیکٹریوں یا دفاتر تک محدود نہیں رہے، بلکہ آہستہ آہستہ ہماری روزمرہ کی زندگی کا حصہ بن رہے ہیں۔ ہم شاید ان سے واقف بھی نہ ہوں، لیکن یہ ٹیکنالوجی مختلف صورتوں میں ہمارے آس پاس موجود ہے۔ سمارٹ ہوم ڈیوائسز (Smart Home Devices) جیسے Alexa اور Google Assistant سے لے کر خودکار ویکیوم کلینرز (Robot Vacuum Cleaners) اور سمارٹ تھرموسٹیٹس (Smart Thermostats) تک، AI روبوٹس ہمارے گھروں کو زیادہ سمارٹ اور فعال بنا رہے ہیں۔
طبی میدان میں، سرجیکل روبوٹس (Surgical Robots) ڈاکٹروں کی مدد کرتے ہیں، تشخیص (Diagnosis) کو بہتر بناتے ہیں، اور یہاں تک کہ مریضوں کی دیکھ بھال میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ خود مختار گاڑیاں (Autonomous Vehicles) ٹرانسپورٹ کے شعبے میں انقلاب برپا کر رہی ہیں، جس سے سفر محفوظ اور زیادہ موثر ہو سکتا ہے۔ خوردہ فروشی (Retail) میں، روبوٹس گوداموں میں سامان اٹھانے اور شیلفوں کو دوبارہ بھرنے میں مدد کرتے ہیں، جبکہ کچھ سٹورز میں گاہکوں کو خودکار چیک آؤٹ (Automated Checkout) کی سہولت بھی میسر ہے۔
AI روبوٹس کے ذریعے ڈیٹا اکٹھا کرنے اور اسے تجزیہ (Analyze) کرنے کی صلاحیت انہیں ہمارے رویوں اور ترجیحات کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔ اس سے ہمیں زیادہ ذاتی نوعیت کی (Personalized) خدمات اور مصنوعات مل سکتی ہیں۔ تاہم، اس کے ساتھ ہی پرائیویسی (Privacy) اور ڈیٹا سیکیورٹی (Data Security) کے خدشات بھی بڑھ جاتے ہیں۔ ہمیں یہ یقینی بنانا ہو گا کہ AI روبوٹس کا استعمال کرتے وقت ہماری ذاتی معلومات محفوظ رہیں۔ یہ ٹیکنالوجی زندگی کے معیار کو بہتر بنانے کا بہت بڑا امکان رکھتی ہے، لیکن اس کے لیے ہمیں ایک متوازن طریقہ کار اپنانا ہو گا جو اس کے فوائد سے فائدہ اٹھائے اور اس کے خطرات کو کم کرے۔
AI روبوٹس کے ساتھ چیلنجز اور ممکنہ حل
AI روبوٹس کی ترقی کے ساتھ کئی چیلنجز بھی سامنے آئے ہیں جنہیں حل کرنا انتہائی ضروری ہے۔ سب سے پہلے، تکنیکی پیچیدگیاں (Technical Complexities) ہیں؛ AI ماڈلز کی ساخت اور ان کے فیصلوں کو سمجھنا بعض اوقات مشکل ہوتا ہے، جسے “بلیک باکس” (Black Box) مسئلہ کہا جاتا ہے۔ اس سے کسی غلطی کی صورت میں ذمہ داری کا تعین کرنا اور اس کی اصلاح کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ دوسرا بڑا چیلنج حفاظت (Safety) اور سیکیورٹی (Security) کا ہے۔ خود مختار روبوٹس اور AI سسٹمز (Systems) کے غلط کام کرنے یا ہیک (Hack) ہونے کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر نقصان ہو سکتا ہے۔
اس کے حل کے لیے، ہمیں “وضاحتی AI” (Explainable AI – XAI) پر تحقیق اور ترقی کو فروغ دینا ہو گا تاکہ روبوٹس کے فیصلے زیادہ شفاف (Transparent) ہو سکیں۔ سخت سیکیورٹی پروٹوکولز (Security Protocols) اور سائبر سیکیورٹی (Cybersecurity) کے ماہرین کی شمولیت سے AI سسٹمز کو بیرونی حملوں سے محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔
سماجی چیلنجز میں سے ایک بے روزگاری (Unemployment) کا بڑھتا ہوا خدشہ ہے، جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے۔ اس کے لیے حکومتوں اور کاروباری اداروں کو مل کر ایسی پالیسیاں بنانی ہوں گی جو کارکنوں کو نئی مہارتیں سکھائیں اور انہیں AI کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار کریں۔ یونیورسل بیسک انکم (Universal Basic Income – UBI) جیسے تصورات پر بھی بحث ہو رہی ہے تاکہ ان افراد کو مالی تحفظ فراہم کیا جا سکے جو AI کی وجہ سے اپنی ملازمتیں کھو دیتے ہیں۔
اخلاقی چیلنجز، جن میں تعصب اور احتساب کا فقدان شامل ہے، کو حل کرنے کے لیے AI کی ترقی میں کثیر الجہتی ٹیموں (Multidisciplinary Teams) کی شمولیت ضروری ہے۔ ماہرین اخلاقیات (Ethicists)، سماجی سائنسدانوں (Social Scientists)، اور پالیسی سازوں کو انجینئرز کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے تاکہ ایسے AI روبوٹس تیار کیے جا سکیں جو انسانی اقدار کا احترام کرتے ہوں اور معاشرتی بھلائی کو ترجیح دیں۔
AI روبوٹس کی حکمرانی اور ضابطہ بندی (Regulation)
میلانیہ ٹرمپ کے بیان کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ ہمیں AI robots سے نمٹنے کے لیے مناسب طریقہ کار اور حکمرانی (Governance) کی ضرورت ہے۔ اس وقت دنیا بھر کی حکومتیں اور بین الاقوامی ادارے AI کی ضابطہ بندی (Regulation) کے لیے مختلف ماڈلز پر غور کر رہے ہیں۔ یورپی یونین (European Union) کا AI ایکٹ (AI Act) ایک اہم مثال ہے جو AI سسٹمز کو ان کے خطرے کی سطح (Risk Level) کے مطابق درجہ بندی (Categorize) کرتا ہے۔ اس میں ہائی رسک (High-Risk) ایپلی کیشنز (Applications) جیسے صحت کی دیکھ بھال اور عوامی حفاظت کے لیے سخت تقاضے رکھے گئے ہیں، جن میں شفافیت، ڈیٹا گورننس (Data Governance)، اور انسانی نگرانی (Human Oversight) شامل ہیں۔ [8]
امریکہ میں، فیڈرل (Federal) اور ریاستی (State) سطحوں پر AI سے متعلق قانون سازی کی جا رہی ہے، اگرچہ ایک جامع قومی قانون سازی ابھی باقی ہے۔ چین (China) نے AI الگورتھمز (Algorithms) کو ریگولیٹ کرنے میں سبقت حاصل کی ہے، خاص طور پر شفافیت اور ڈیٹا پرائیویسی پر زور دیتے ہوئے یہ یقینی بنایا جا رہا ہے کہ AI پر مبنی نظام شہریوں کے حقوق کا احترام کریں۔ [2]
ضابطہ بندی کا مقصد AI کی جدت (Innovation) کو روکنا نہیں، بلکہ یہ یقینی بنانا ہے کہ اسے ذمہ داری کے ساتھ تیار اور تعینات (Deploy) کیا جائے۔ اس میں اخلاقی اصولوں کو شامل کرنا، جیسے انصاف (Fairness)، احتساب (Accountability)، اور پرائیویسی (Privacy)، اہم ہے۔ دنیا بھر میں پالیسی سازوں کو اس بات پر اتفاق کرنا ہو گا کہ AI کے خطرات کو کیسے کم کیا جائے اور اس کے فوائد کو کیسے زیادہ سے زیادہ کیا جائے۔ اس کے لیے عالمی تعاون (Global Collaboration) اور مشترکہ فریم ورکس (Shared Frameworks) کی ضرورت ہے جو ٹیکنالوجی کی تیزی سے ترقی کے ساتھ ہم آہنگ ہو سکیں۔ ہمیں AI روبوٹس کے لیے ایسے قواعد و ضوابط بنانے ہوں گے جو نہ صرف آج کے چیلنجز کا سامنا کریں بلکہ مستقبل کے غیر متوقع حالات کے لیے بھی لچکدار (Flexible) ہوں۔ [4]
انسانیت کا کردار: AI روبوٹس کے ساتھ ہم آہنگی
جب ہم AI روبوٹس کی دنیا میں قدم رکھ رہے ہیں، تو انسانیت کا کردار (Role of Humanity) پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہو جاتا ہے۔ یہ درست ہے کہ AI robots بہت سے کام زیادہ تیزی اور مؤثر طریقے سے کر سکتے ہیں، لیکن وہ انسانی ذہانت (Human Intelligence)، تخلیقی صلاحیت (Creativity)، اور جذباتی گہرائی (Emotional Depth) کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ انسانوں کی منفرد خصوصیات، جیسے ہمدردی (Empathy)، اخلاقی فیصلہ سازی (Moral Decision-Making)، اور پیچیدہ سماجی تعاملات کو سمجھنے کی صلاحیت، انہیں AI روبوٹس سے ممتاز کرتی ہے۔
ہمیں AI روبوٹس کو اپنے متبادل (Replacement) کے طور پر نہیں، بلکہ اپنے معاونین (Assistants) اور شراکت داروں (Partners) کے طور پر دیکھنا ہو گا۔ ایسی دنیا جہاں انسان اور AI روبوٹس مل کر کام کریں گے (Human-AI Collaboration)، وہاں انسانی صلاحیتیں (Human Capabilities) مزید بڑھیں گی اور ہم ایسے مسائل حل کر سکیں گے جو اکیلے ممکن نہیں تھے۔ اس کے لیے ہمیں اپنی تعلیمی نظام (Education System) میں تبدیلیاں لانی ہوں گی تاکہ آئندہ نسلیں (Future Generations) AI کے ساتھ کام کرنے کے لیے ضروری مہارتیں حاصل کر سکیں۔
ہمیں نہ صرف تکنیکی مہارتیں سکھانی ہوں گی بلکہ اخلاقی سوچ (Ethical Thinking)، تنقیدی تجزیہ (Critical Analysis)، اور مواصلاتی صلاحیتوں (Communication Skills) پر بھی زور دینا ہو گا، جو AI روبوٹس کے لیے مشکل ہیں۔ ہمیں AI کے ڈیزائن اور ترقی میں انسانی اقدار (Human Values) کو مرکزی حیثیت دینی ہو گی تاکہ یہ ٹیکنالوجی انسانیت کی خدمت کرے نہ کہ اسے نقصان پہنچائے۔ یہ ایک ایسا مستقبل ہے جہاں انسان ٹیکنالوجی کے ساتھ ہم آہنگی سے رہتے ہوئے اپنی صلاحیتوں کو نئی بلندیوں تک پہنچا سکتے ہیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے، ہمیں ایک وسیع اور مشترکہ کوشش کی ضرورت ہے جس میں افراد، ادارے، اور حکومتیں سب شامل ہوں۔
مستقبل کی طرف ایک جھلک: AI روبوٹس کے ساتھ زندگی
آج سے دس سال بعد ہماری زندگیوں میں AI robots کا کردار کیا ہو گا، یہ ایک دلچسپ سوال ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ AI کی ترقی سے نہ صرف ہمارے کام کرنے کا طریقہ بدلے گا بلکہ ہماری روزمرہ کی زندگی میں بھی نمایاں تبدیلیاں آئیں گی۔ گھروں میں سمارٹ معاونین مزید ذہین ہو جائیں گے، جو نہ صرف ہمارے شیڈول کو منظم کریں گے بلکہ ہماری صحت اور حفاظت کا بھی خیال رکھیں گے۔ نقل و حمل کے شعبے میں خودکار گاڑیاں اور ڈرونز عام ہو جائیں گے، جس سے ٹریفک جام (Traffic Jams) اور حادثات میں کمی آئے گی۔
صحت کے شعبے میں، AI روبوٹس ڈاکٹروں کو درست تشخیص اور ذاتی نوعیت کے علاج کے منصوبے بنانے میں مدد دیں گے۔ تعلیم میں، AI پر مبنی ٹولز طلباء کو انفرادی ضروریات کے مطابق سیکھنے کے مواقع فراہم کریں گے۔ صنعتوں میں، AI روبوٹس پیداوار میں اضافہ کریں گے اور خطرناک کاموں کو محفوظ بنائیں گے۔
تاہم، یہ مستقبل چیلنجز سے خالی نہیں ہو گا۔ ہمیں سائبر سیکیورٹی کو مضبوط بنانا ہو گا، کیونکہ AI سسٹمز پر حملے زیادہ پیچیدہ اور تباہ کن ہو سکتے ہیں۔ پرائیویسی کے مسائل کو حل کرنے کے لیے سخت قوانین اور بہتر ٹیکنالوجیز کی ضرورت ہو گی۔ ملازمتوں کی منتقلی (Job Displacement) کو کامیابی سے سنبھالنے کے لیے ہمیں مہارتوں کو اپ گریڈ کرنے کے وسیع پروگرامز شروع کرنے ہوں گے تاکہ کوئی بھی پیچھے نہ رہ جائے۔
مستقبل میں AI روبوٹس کے ساتھ کامیاب ہم آہنگی کے لیے ضروری ہے کہ ہم ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ ساتھ سماجی اور اخلاقی فریم ورکس کو بھی مضبوط کریں۔ یہ ایک مسلسل عمل ہو گا جس میں انسانیت کو AI کی طاقت کو سمجھنا اور اسے ذمہ داری کے ساتھ استعمال کرنا سیکھنا ہو گا۔ ایک ایسا مستقبل ممکن ہے جہاں AI روبوٹس انسانی زندگی کو بہتر بنائیں اور ہمیں نئے امکانات کی طرف لے جائیں، بشرطیکہ ہم دانشمندی اور دور اندیشی سے کام لیں۔ ہمیں ٹیکنالوجی کے ساتھ ایک مثبت اور نتیجہ خیز تعلق قائم کرنا ہو گا، جس میں انسان ہمیشہ مرکزی کردار میں رہے۔
اے آئی کی اس تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں مزید جاننے اور اپنی مہارتوں کو نکھارنے کے لیے، اے آئی استاد کو سبسکرائیب کیجئے۔
اگر آپ مصنوعی ذہانت کے مفت کورسز، تازہ ترین خبروں اور AI ٹول ٹیوٹوریلز کے بارے میں مزید جاننا چاہتے ہیں، تو ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں۔